ففتھ جنریشن وار اور سقوط بنگال


16اور 17 دسمبر 1971 کی درمیانی شب جب ریڈیو ڈھاکہ سے بنگلہ دیش بننے کا اعلان ہوا تو دونوں طرف کٸ دلوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ارض پاک کا ایک بڑا حصہ ہم سے جدا ہوگیا ۔ ایک بازو ٹوٹ کر الگ ہوگیا ۔ بہت سے لوگوں کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گٸیں تو وہیں بہت سے دل دھڑکنا چھوڑ گۓ۔ ایک قیامت ان کے ہاں بھی بپا تھی جن کے افراد خانہ اس جنگ کا شکار بنے تھے یا جو لاپتہ تھے یا جو جنگی قیدی بن کر کفار کے قبضے میں گۓ تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے زمہ داروں کا آج تک ہم تعین نہیں کر پاۓ کوٸ فوج کو زمہ دار ٹھہراتا ہے کوٸ سیاستدانوں کو خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کا نام لیا جاتا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کی بنیاد

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد وہ سوچ تھی جس نے ملک کے دونوں حصوں میں جنم لیا ۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا باور کروایا گیا کہ وہ مغربی پاکستان کی ذیلی کالونی ہیں اور مغربی پاکستان ریشم پٹ سن اور چاۓ کی امدن کھا رہا ہے۔ مرکز میں ان کی کوٸ اہمیت ہے نا نماٸندگی۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں اس سوچ کا پھیلایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں اۓ روز سیلاب آنے سے ملک نقصان میں ہے۔ بنگالی ناکارہ قوم ہیں اور علم وعقل سے محروم ہیں۔ یہ پاکستان میں ففتھ جنریشن وار کا آغاز تھا۔
1958 سے ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کی علاقاٸ سیاسی پارٹیاں اپنے علاقوں میں ہی انتخابات جیتتیں تھیں اور مخلوط حکومت قاٸم ہوتی تھی ۔ مگر دسمبر 1970 میں یحیی خان کے زیر نگرانی ملک کے سب سے پرامن اور پہلی بالغ راۓ شماری کی بنیاد پر منعقد انتخابات کے رزلٹ نے سب 
کو چونکا دیا۔

مجیب الرحمان نے جب مغربی پاکستان میں اپنی غیر مقبولیت دیکھی تو اندراگاندھی کے ساتھ مل کر سازش تیار کی جسے اگرتلہ سازش کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس نے اپنی پارٹی عوامی لیگ کا عسکری ونگ مکتی باہنی بنایا اور ابتدا احتجاج اور جلسے جلوسوں سے کی مگر جلد ہی مکتی باہنی مشرقی پاکستان میں مغربی باشندوں کا بے دردی سے قتل عام کرنے لگے۔ اگرتلہ وہ سازش تھی جس کی قیمت انہوں نے جان دے کر چکاٸ۔ 
1970 کے انتخابات کے بعد وزیراعظم مشرقی پاکستان سے ہونا ان کا اٸینی حق تھا ۔ تب بھٹو نے اس وقت حالات کی نزاکت نہ سمجھتے ہوۓ کہا کہ صدر مشرقی پاکستان سے ہوگا ورنہ ادھر تم اِدھر ہم۔ اس نعرے کا مفہوم پہلے سے پروپیگنڈے کا شکار بنگالیوں نے الٹ لیا اور بھارتی فنڈڈ مکتی باہنی کو اپنا کھیل مزید کھل کر 
کھیلنے کا موقع مل گیا۔


1965 کی جنگ میں پاک فوج کی ہاتھوں ہوٸ شدید ترین زلت کا بدلہ لینے کے لیے بھارتی حکومت بے چین تھی کیونکہ اس سے پہلے 1962 میں بھارتی فوج چین کے ہاتھوں بھی بڑی ہزیمت اٹھا چکی تھی

اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر زلت کے احساس سے دوچار بھارتی فوج نے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا آغاز کیا۔ کیونکہ براہ راست جنگ کا نتیجہ وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح پاکستانی ایک قوم بن کر دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ بھارت نے اپنے زر خریدوں کے زریعے دونوں طرف ایسی تقاریریں کرواٸیں ریڈیو سے پروگرام نشر کرواۓ جن سے دوریاں پیدا ہوٸیں۔ پھر مکتی باہنی کی بنیاد رکھی جو بنگالیوں کے حقوق کے نعرے بلند کرکے ان میں احساس محرومی بڑھانے لگی۔

اندرا گاندھی ایک طرف مکتی باہنی کے زریعے بھاٸیوں سے بھاٸ مروا رہی تھی دوسری طرف کہ رہی تھی کہ۔۔۔ آج ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
سقوط ڈھاکہ
جب عوامی سطح پر مکتی باہنی ہر طرف اپنا زہر پھیلا رہی تب بھی ایوانوں میں حکومت بنانے کی کشاکش جاری تھی ۔ایک طرف مجیب الرحمان وزارت اعظمی پر بیٹھنا چاہتا تھا کہ اس کی پارٹی اکثریت میں تھی دوسری طرف بھٹو کا جاگیردرانہ ذہن کسی بنگالی کی حکومت قبول کرنے کو تیار نہ تھا ۔ اور بھارت دانت تیز کیے بیٹھا تھا

ریس کورس گراٶنڈ ڈھاکہ



بالاخر پاکستان کی تاریخ میں وہ دردناک دن بھی آیا جب دنیا حیرت سے دیکھ رہی کہ 1965 کو بھارتی فوج کو زمین چٹانے والی فوج محض چھ سال بعد ہتھیار ڈال رہی ہے۔ 
پاکستانی فوج نے ہاٸ کمان کے حکم کی تعمیل کی کیونکہ انہیں اپنے ادارے پر اعتبار تھا۔ فوج کے سربراہان جانتے تھے کہ رسد کی سپلاٸ لاٸن ٹوٹ چکی ہے ۔ بھارتی فوج کی سپلاٸ بحال تھی۔ غدار بنگالی پاک فوج کی مخبریاں کرکے بھارتی فوج کا خبریں پہنچا رہے تھے مکتی باہنی نے فوجی چھاٶنیوں کو کھانے پینے اور ایندھن کی فراہمی کے تمام راستے بند کروا دیے تھے۔ تو پاک فوج کس کی خاطر لڑتی؟ اقتدار کے لیے جھگڑتے سیاستدان اور مکتی باہنی کے لیے یا غدار بنگالیوں کے لیے؟
آج تک یہ بحث ختم نہیں ہوٸ کہ زمہ دار سیاستدان تھے یا فوج تھی؟
یاد رکھیں جب کلکتے کے بازاروں میں مکتی باہنی کے بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے اساتذہ ۔۔ڈاکٹرز انکم ٹیکس افیسرز اور دیگر طبقے کے ملازمین اور عام افراد کے قتل عام کے بعد ان کی بیویاں بیٹیاں اور بہنیں چند ٹکوں کے عوض فروخت کی تھیں۔ تو یہ کام نہ فوج کا تھا نہ کسی سیاستدان کا یہ دشمن کے پراپیگنڈے کے شکار مسلمان 
بنگالیوں کا تھا۔


مکتی باہنی نے لاکھوں غیربنگالی مسلمز کوقتل کیا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب اپنی مسلمان بہنوں کو کلکتے میں ہندوٶں کے ہاتھوں بیچا۔ وجہ پروپیگنڈا تھا جس نے بھاٸ بھاٸ کی عزت اور جان کا دشمن بنا دیا۔

  موجودہ حالات  

مکتی باہنی بنگالیوں کے حقوق کا نعرہ لگا کر قاٸم ہوٸ اور مسلمانوں کا خون بہا کر ملک توڑ کر نیست ونابود ہوگٸ کیونکہ مقصد پورا ہونے پر بھارت نے اسے ختم کر دیا۔
کراچی میں ایم کیو ایم مہاجروں کے حقوق کے نام پر قاٸم کی اور کراچی خون سے نہلا دیا۔
اب پی ٹی ایم پختونوں کے حقوق کے نام سے قاٸم ہوٸ اور پختونوں ہی کی لاشوں پر گندہ کھیل کھیل رہی ہے۔
ان تمام تنظیموں کا ایک ہی طریقہ کار اور ایک ہی مقصد ہے تمام پاکستانیوں کی تباہی۔ یہی ففتھ جنریشن وار ہے جس سے بار بار سابق DGISPR میجر جنرل آصف غفور پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل کا اگاہ کرتے رہے ہیں۔ ہمارا دشمن مکار ہے چھپ کر وار کرتا ہے رات کی تاریکی میں حملہ اور تاریکی میں غدار خریدنا۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں یہی ہماری پہچان ہے۔ آج بنگالیوں کی پٹ سن الو چاول سب بھارت کے لیبل سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہہں۔اسلامی ری پبلک کی بجاۓ بنگلہ دیش ایک سیکولر ری پبلک بن چکا ہے جہاں علما کو پھانسی دی جاتی ہے۔ مودی دوسرا گھر کہتا ہے ۔
اندرا گاندھی شیخ مجیب اور بھٹو اپنی خواہشات اور سازشوں سمیت اپنے انجام کو پہنچے ۔ مگر یہ پراکسی وار آج بھی جاری ہے دشمن اج بھی وہی سازشیں کر رہاہے غدار آج  بھی ہیں مگر اب ہم اگاہ ہیں تو چلیں مل کر جواب دیتے ہیں


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

My inspiration ... Major General Asif Ghafoor