ڈپریشن اور موت کا سبب

موت کا سبب زبان کی آلودگی
تحریر :    آمنہ  امان
انسانی زندگی کا دورانیہ کم ہونے کی سب سے اہم وجہ بہت سی نئی نئی بیماریاں ہیں اور ان بیماریوں کی بے تحاشہ اقسام اور بے تحاشا  وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں جن میں سب سے اہم وجہ اکثر اوقات ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے ۔ فضائی آلودگی سانس کی بیماریوں کا سبب بتائی جاتی ہے۔ آبی آلودگی معدے اور گردوں کے امراض کا سبب بنتی ہے تو زمینی آلودگی بھی بہت سی جان لیوا بیماریوں کا سبب  ہے۔ مگر آلودگی کی ایک قسم ایسی ہے جسے اس کی پہچان اور نام دونوں سے تاحال محروم رکھا گیا ہے جبکہ درحقیقت یہ سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہے یہ آلودگی ہے زبان کی آلودگی ۔
زبان کی آلودگی زندگی کو متعفن کر دیتی ہے اور ہمیں اس کی ہلاکت خیزی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔دل کی بیماریاں سر درد ماٸیگرین ۔۔ ہائی بلڈ پریشر شوگر اور ڈپریشن جیسے جان لیوا امراض کی ماں یہی زبان کی آلودگی ہے۔ حتٰی کہ یہ کینسر تک کا بھی سبب ہوتی ہے
آج اس تحریر کے زریعے ہم جانیں گے کہ کیسے یہ آلودگی تیزی سے ہمارے معاشرے میں پھیل کر ہمارا سکون چین اور حتٰی کہ ہماری جان تک ہم سے چھین رہی ہے اور خود ہمارا اپنا کیا کردار ہے اس آلودگی کو پھیلانے میں ۔ 
آج دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے کمپیوٹر انٹرنیٹ موبائل۔اور میڈیا کا دور ہے نوجوان نسل ان کے استعمال میں اتنی مصروف ہے کہ ان کے پاس والدین کے پاس بیٹھنے کا وقت ہی نہیں بچتا دوسری طرف والدین کی حالت بھی مختلف نہیں وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں جہاں ترجیحات اچھا کمانا اور بچوں کوزندگی کی ہر سہولت وآسائش فراہم کرنا ہیں۔ اچھے مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیج کر ان کافرض پورا ہو جاتا ہے۔ گزرے وقتوں میں  ماں اور باپ ہی ہوتے تھے راہنما اور سکھانے والے آجکل دوست بنے ہوے ہیں ۔جب والدین اپنا منصب اور مقام بھول کر دوست کی سطح پر اُتر آئیں گے تو ماں باپ کا فرض اور زمہ داری کس کی ہوگی۔ فاصلے اتنے کم نہ کریں کے ماں باپ عزت ہی کھو دیں بچے ان کا احترام ہی بھول جائیں۔ بچوں کی کردار سازی پر خود توجہ دیں اچھا کھانا اسائشات اور مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیج کر والدین کی زمہ داری پوری نہیں ہوجاتی۔
دوستو!  زبان کی آلودگی پھیلانے میں سب سے اہم کردار انہیں تعلیمی اداروں کا ہے جو حاضر جوابی اور آؤٹ سپوکن کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوۓ بچوں کو بدتمیزی سکھا رہے ہیں استاد اپنی عزت کرنا سکھانے میں ناکام ہیں سونے پر سہاگہ طالب علموں کو کچھ بھی کہنے پر اساتذہ کی سرزنش والدین اور بچوں کے سامنے کی جاتی  ہے  درسی کتب رٹوانے اور امتحانات میں زیادہ نمبرز کا حصول ہی مقصد تعلیم بن کر رہ گیا ہے ۔کردار سازی بہترین آداب واخلاقیات سے مزین اک شخصیت کی بجاۓ سکولز ایک ایسا برانڈ تیار کرنے پر زور دیتے ہیں جو ڈاکٹر ، انجینئر  یا آئی ٹی کا ماہر بے شک ہوگا مگر اچھا انسان ہونے کی بالکل گارنٹی نہ ہوگی اور والدین کو بھی آجکل یہی درکار ہے۔ اساتذہ کی ترجیح بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کے سٹوڈنٹس اچھے نمبرز لیں تاکہ اسے انکریمنٹ ملے۔
کردارسازی کی مزید دھجیاں بکھیرنے والا میڈیا ہے جس پر سر شام کچھ نامور شخصیات بیٹھ کر ایک دوسرے پر رکیک الزامات لگاتے شور مچاتے اور تو تکرار کرتے ہیں ہر نیوز چینل پر یہی مناظر ملیں گے جتنی بدزبانی اتنی زیادہ ریٹنگ۔ انٹرٹینمنٹ چینلز کا حال اس سے بھی بدتر ہے بچے والدین سے جھوٹ بولتے بدتمیزی کرتے اتنے تواتر سے دکھاۓ جاتے ہیں کہ۔سب کو بدتمیزی کرنا نارمل ہی لگنے لگتا ہے ۔
بڑوں سے اونچی آواز میں بولنا بدلحاظی کرنا۔ ہم عمر کو ان کے عیوب منہ پر گنوانا ہمہ وقت دوسروں کے ناقد بنے رہنا یہ سب بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے یہی زبان کی آلودگی ہے۔ 
اکثر اوقات میاں بیوی میں سے ایک یا دونوں ہی ہر وقت دوسرے کے ناقد بنے رہتے ہیں ان کے کام اور ذات میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں ۔ سسرال کو فخریہ انداز میں طنز کا نشانہ بنا کر ہنسنا۔ ایک دوسرے پر طنزیہ لطیفے بنانا یہ طنزیہ رویے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں۔ یہ زبان کی آلودگی ہے جو دھیرے دھیرے زندگیاں چاٹ جاتی ہے۔
اس کے بر عکس متحمل انداز اور حوصلہ افزا طریقے سے کہی گئی بات سکون بخش ہوتی ہے ۔نرم مسکراہٹ طنزیہ بلند بانگ قہقہے کی نسبت کہیں اطمینان بخش ہوتی ہے ۔کوشش کریں کہ خود اپنی ذات کو بھی اس آلودگی سے پاک رکھیں اپنے اہل خانہ کو بھی پیار ومحبت سے سمجھائیں  بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کریں۔ حاضرجوابی اور بدتمیزی کے درمیان فرق کو سمجھائیں۔  اور معاشرے سے اس آلودگی کو بھی ختم کریں جو دکھائی دیتی ہے نہ اس کی بو آتی ہے مگر زندگی بدبودار کردیتی ہے۔ اس آلودگی کا خاتمہ بہت سے امراض کے خاتمے کا سبب ہوگا بس ضرورت اس کے احساس کی ہے۔

Comments

  1. بہت زبردست تحریر ہے میں آپ کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں جزاک اللہ خیرا" کثیرا اللہ پاک آپ کو مزید اچھا لکھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔ بس یہ کہنا تھا آپ پاکستان کے موجودہ حالات پر بھی لکھین

    ReplyDelete
  2. سبحان اللہ بہت زبردست تحریر ہے انسان اور معاشرے پر بہت پر مغز تحریر رقم کی اس میں روحانیت اور صوفی ازم کی بنیاد پر انسانی فلاح پر تحریر واقعی قابل ستائش ہے

    ReplyDelete
  3. A well written article especially in current situation. Keep up the good work.

    ReplyDelete
  4. بہت خوب, اگر ہم زندگی کے ان تلخ حقائق پہ قابو پا لیں تو ہماری نسلیں سنور جائیں

    ReplyDelete
  5. ماشاالللہ بہترین انداز میں تمام مساٸل کو اجاگر کیا گیا ہے

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

My inspiration ... Major General Asif Ghafoor

ففتھ جنریشن وار اور سقوط بنگال